کہا معراج پر آؤ شہِ ابرار بسم اللہ
بٹھا کر عرش پر سن لوں تری گفتار بسم اللہ
کہا رب نے کہ امت کا سنا دو حال بھی مجھ کو
وہاں امت کی بخشش کا ہوا اظہار بسم اللہ
جہاں حسنین کے نانا نے رکھے تھے قدم اپنے
وہاں پر کہکشاں جیسے ہوئے انوار بسم اللہ
ستایا جس نے طائف میں خدا اُس کو کچل دیتا
مگر دشمن کی خاطر بھی ہوئے غم خوار بسم اللہ
جسے دیدار ہوتا ہے بصارت ہے وہی افضل
نگاہوں میں رہیں میرے وہی سردار بسم اللہ
ضرورت ہے کریں امداد مفلس کی غریبی میں
کہ زندہ اُن کا ہو جائے وہی ایثار بسم اللہ
بتائے تھے جو احمد نے صحابہ کو قیامت کے
زمانے میں ہوئے ظاہر وہی آثار بسم اللہ
معنبر زلف سے پا کر گلابوں نے مہک اُن کی
بتائی ساری دنیا کو تری مہکار بسم اللہ
مرے آقا فضاوں کو سجاتے اپنی سانسوں سے
مدینے کی فضائیں ہو گئیں گلزار بسم اللہ
زبانِ مصطفٰی سے مل گئی سب کو شفا قائم
رہا کوئی بھی دنیا میں نہیں بیمار بسم اللہ
لحد میں کاش مجھ سے شاہِ دو عالم یہ فرمائیں
سنا دے نعت مجھ کو اے مرے حبدار بسم اللہ