کر کے طیبہ کا سفر آیا ہوں

کر کے طیبہ کا سفر آیا ہوں

دل میں لے کر میں سحر آیا ہوں


ہَے مِرے سامنے روضہ اُن کا

میں اُجالوں میں اُتر آیا ہوں


اُن کی دہلیز پہ آنکھیں رکھ دیں

اب مَیں خود کو بھی نظر آیا ہوں


ہر بلندی پہ ہے پرواز مِری

لے کے وہ طاقتِ پَر لایا ہوں


بارِ عصیاں نے ڈبویا تھا مجھے

ہَے کرم اُنؐ کا اُبھر آیا ہوں


بے ثمر شاخِ عمل تھی فیضیؔ

لے کے جھولی میں ثمر آیا ہوں