کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبیں، جو محمد کے تِرائے ہوئے ہیں
اشک آنکھوں میں تو ہونٹوں پہ درود اور سلام
اُن کے عشاق بھی کیا رنگ جمائے ہوئے ہیں
اُن کا دل کیوں نہ بنے روکشِ طُورِ سینا
جالیاں اُن کی جو سینے سے لگائے ہوئے ہیں
جلوہ فرما وہ ہوئے کیا مقام ِمحمود
ساری اُمّت کی نگاہوں میں سمائے ہوئے ہیں
قبر کی نیند سے اُٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں اُنہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
ورفعنا لک ذکرک کا تصور لے کر
ہم نظر گنبدِ خضرٰی پہ جمائے ہوئے ہیں
بوسۂ در سے انہیں اب تو نہ روک اے درباں
خود نہیں آئے یہ مہمان بُلائے ہوئے ہیں
حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
نام آنے سے ابوبکرؓ و عمرؓ کا لب پر
تُو بگڑتا ہے، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
ہے نصیرؔ اُنس کا گہوارہ مدینے کی زمیں
ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی گھر آئے ہوئے ہیں