خارِ صحرائے مدینہ کی ہے کیا شان نہ پوچھ

خارِ صحرائے مدینہ کی ہے کیا شان نہ پوچھ

کتنا پر کیف ہے طیبہ کا گلستان نہ پوچھ


ختم ہوتا ہی نہیں جود و کرم کا لنگر

شہ کی دہلیز کا کس درجہ ہے فیضان نہ پوچھ


بول اٹھیں اس کے کفِ دست کی جب کنکریاں

کتنا بوجہل ہوا اس گھڑی حیراں نہ پوچھ


چاند دو نیم ہوا مہرِ فلک لوٹ آیا

سرورِ دیں کے ہے اعجاز کی کیا شان نہ پوچھ


رب سے رو رو کے دعا مانگی برائے امت

کتنا امت پہ ہے سرکار کا احسان نہ پوچھ


جب سمجھ پانے سے قاصر ہیں مکینِ سدرہ

شاہِ دیں کی حدِ رفعت تو اے نادان نہ پوچھ


ابنِ ثابت کو عطا کرتے ہیں آقاؐ منبر

نعت گوئی کا صلہ کتنا ہے ذیشان نہ پوچھ


جاں لٹا سکتا ہے ایمان نہ دے گا مومن

بے بہا کتنا مسلماں کا ہے ایمان نہ پوچھ


ہو کے نم دیدہ میں جب پہنچا درِ آقاؐ پر

اپنے عصیاں پہ ہوا کتنا پشیمان نہ پوچھ


اس کی پہچان ہے مداحِ نبیؐ کی صورت

اور احسؔن کی کوئی دوسری پہچان نہ پوچھ