خیال حسن رسول زمن میں رہتے ہیں
وہ بن کے روح مرے تن بدن میں رہتے ہیں
میں اس حبیب کا مدحت نگا ہوں لوگو
کہ جس کے تذکرے ہر انجمن میں رہتے ہیں
گدا نواز کوئی بھی نہیں ان جیسا
چلو گداؤ نبی کے وطن میں رہتے ہیں
کبھی تو پاس بلائیں گے ہم کو بھی آقا
اسی خیال میں ہم اس لگن میں رہتے ہیں
رسائی دست خزاں کی محال ہے اُن تک
جو پھول میرے نبی کے چمن میں رہتے ہیں
وہ راہ حق سے کبھی بھٹک نہیں سکتے
جو گم خیالِ حسین وحسن میں رہتے ہیں
انہیں سے سوز محبت ملا ہے دنیا کو
مرے نبی کے جو عاشق قرن میں رہتے ہیں
نیازی گرمی محشر کا اُن کو خوف نہیں
جو لوگ سایہ شاہ زمن میں رہتے ہیں