خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

خُدایا ! ہجر نے چھینا سکونِ قلب و جاں ہم سے

غمِ فُرقت کو سہہ لینا ، یہ مُمکن ہے کہاں ہم سے


خُدا گر لے گیا ہم کو ، اُنہی کو جا سُنائیں گے

وہی تو غم میں سُنتے ہیں ، ہماری داستاں ہم سے


ترا صد شُکر ہے مولا ! کہ بخشا ہے حبیب اپنا

نہ جانے کس قدر لیتا ، زمانہ اِمتحاں ہم سے


نوازا شفقتوں سے بھی ، تو کی ہے اشک شوئی بھی

ہمارے رنج و غم میں جو سُنی آہ و فغاں ہم سے


کرم اُن کا ہوا ہم پر ، ہمیں طیبہ میں بُلوایا

وگرنہ کیسے جا پاتے ، ضعیف و ناتواں ہم سے


تُجھے سُورج ، سِتاروں پر ، قمر پر ، ناز ہے لیکن

زمیں پر اُن کا روضہ ہے، یہ سُن لے آسماں ہم سے


اُنہی کے آستانے سے ، کرم کی بھیک ملتی ہے

زمانہ چُھوٹ جائے پر ، نہ چُھوٹے آستاں ہم سے


خُدا کا شُکر ہے ! جس نے ہمیں توفیق بخشی ہے

وگرنہ آپ کی مدحت ، شہا ! ہوتی کہاں ہم سے


تمنّا ہے کہ ہو جائیں خُدا و مُصطفٰے راضی

جلیل اس کی نہیں پروا جو رُوٹھے کُل جہاں ہم سے