خوش نصیب مدینے بلائے جاتے ہیں

خوش نصیب مدینے بلائے جاتے ہیں

جو نجات کے انہیں مژدے سنائے جاتے ہیں


میں ایسے در کا گدا ہوں مجھے کمی کیا ہے

جہاں فقیر بھی سُلطاں بنائے جاتے ہیں


نبی کے نور کا صدقہ ہے جاری و ساری

کہ اَب بھی دونوں جہاں جگمگائے جاتے ہیں


کسی کی یاد کا ایسا صَلہ نہیں مِلتا

وہ میرے دِل کو مدینہ بنائے جاتے ہیں


دیا ہے یہ بھی قرینہ تری محبت نے

ہر ایک غم کو ترا غم بنائے جاتے ہیں


عجیب ڈھنگ ہے مَحشر میں پردہ پوشی کا

کہ بے حِسَاب ہمیں بخشوائے جاتے ہیں


وہ سُن رہے ہیں یقیناً اسی تو قع پَر !

فسانہ غمِ ہستی سُنائے جاتے ہیں


نہیں ہے اَور کوئی چیز بھی کہ نذر کریں

ہمارے پاس ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں


ضرور پہنچیں گے خالِدؔ ہم اپنی منزل تک

سر ان کے نقشِ قدم پر جھکائے جاتے ہیں