خوشبوئے گلستان نہ شبنم ہے معتبر
جس میں حضور ہیں وہی عالم ہے معتبر
ہاں ہاں یقین شرط ہے تاثیر کیلئے
وردِ درودِ پاک سے ہر دم ہے معتبر
جس لطف میں گزرتے ہیں اب روز و شب مرے
لگتا ہے جیسے ہجر کا موسم ہے معتبر
طیبہ کا غم ملے تو بتانا ذرا مجھے
خوشیاں ہیں معتبر یا مرا غم ہے معتبر
اُن کا قدم خیال میں ہی چوم لے کبھی
جس نے کہا نزاکتِ ریشم ہے معتبر
کیوں جائیں بادشاہوں کے در پر ترے غلام
تیرا کرم ہمارے لئے کم ہے معتبر ؟
تعریفِ غیر کچھ نہیں بس شکلِ شعر ہے
ہو نعت تو خیالِ منظّم ہے معتبر
جب سے ملی ہے نعمتِ پُرفیض نعت کی
اس وقت سے تبسمِ منعَم ہے معتبر