کیا حسنِ سخا جانِ سخا دستِ کرم ہے

کیا حسنِ سخا جانِ سخا دستِ کرم ہے

کیا حسنِ عطا جانِ عطا دستِ کرم ہے


لایا ہوں خطاؤں سے بھری فردِ عمل میں

آقا جو خطا پوش ترا دستِ کرم ہے


ہر دکھ کی دوا اور شفا پائی ہے میں نے

مجھ کو بھی ترا دستِ شفا دستِ کرم ہے


ٹھنڈک بھی عجب سی ہے تو خوشبو بھی عجب سی

کونین میں بے مثل ترا دستِ کرم ہے


پنجابۂ رحمت ہو رواں پھر مرے آقا

امید فزا اب بھی شہا دستِ کرم ہے


اے کاش کسی روز یہ محسوس ہو نوری

آنکھوں پہ تصوّر میں دھرا دستِ کرم ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

دردِ دل کی یہ تمنّا ہے دوا تک پہنچے

محمد مصطفے آئے فضاواں مسکراپیاں

شاہ کی تصویر ہر درپن میں ہے

شاہوں کے سامنے نہ سکندر کے سامنے

کتنے عالم زیرِ رحمت رحمت العالمیں

لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا

داسی موہے بول دے سیاں

آسماں خاک مدینہ کی سلامی کے لئے

جتّھوں تک کبریائی کبریا دی

مجھے پہ مولا کی رحمت بڑی ہو گئی