کیا شان میں لکھے گا کوئی ان کا قصیدہ

کیا شان میں لکھے گا کوئی ان کا قصیدہ

جیسے وہ ہیں ویسا نہ تو دیدہ نہ شنیدہ


جب یاد کیا قلب ہوا نا فہء آہو

جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدہ


رکھ ایک طرف فکر کو قرطاس و قلم کو

اشکوں سے بھی لکھ ان کی ثناء اُن کا قصیدہ


دیکھا ہے بلندی پہ ہر اک جا سرِ افلاک

لیکن اسے دیکھا ہے مدینہ میں خمیدہ


حسرت میں زیارت کی بہے جاتے ہیں آنسو

اچھا ہو وضو کرتا ہے دیدار کو دیدہ


کیا اس کو خریدیں گے سلاطینِ زمانہ

اے رحمتِ عالم تری رحمت کا خریدہ


اُمت ہے بہت زار و پریشان ، کرم کر

چادر بھی دریدہ ہوئی دامن بھی دریدہ


وہ شاعری اچھی کہ دکھائے جو یہ منظر

آغوشِ کرم میں سگِ دنیا کا گزیدہ


محتاج نہ ہوگا کبھی وہ ہاتھ جو لکھے

اس معطئ و مُنعِم کی سخاوت کا قصیدہ


محروم نہیں ہوں گی بصارت سے وہ آنکھیں

گو خواب سہی ، ہوں رُخِ انوار کی دیدہ


بس ایک ہی جھونکا ہے بہت شہرِ نبی کا

آواز یہ دیتے ہیں تن و قلبِ تپیدہ


لایا درِ رحمت پہ تجھے جادہء رحمت

کافی تری بخشش کے لیے ہے یہ قصیدہ


جس راہ سے گذرا ہے ادیبؔ ان کی ثناء میں

رخشندہ تا بندہ و درخشاں و دمیدہ

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

ایمان کو ثبات ہے ذاتِ رسولؐ سے

جس بھِکاری کو کیا آپؐ کی رحمت نے نہال

سنور جائے گی سب کی عاقبت، سب کا بَھلا ہوگا

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

مظہرِ شانِ حق ہے جمالِ نبیؐ

بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

مجھے اُس کی قِسمت پہ رَشک آرہا ہے

یہی زمیں ہے یہی آسماں مدینے میں

جہاں میں آمدِ نورِ نبی پر