میں کیسے عالِم اشیا سے ماورا سمجھوں
جو تیری آنکھ نے دیکھا اُسے خُدا سمجھوں
جُدا جُدا ہے زمانے میں ہر بشر کا خمیر
میں ہر بشر کو بھلا کیسے ایک سا سمجھوں
جو شخص عظمتِ آدم سے بے خبر ہے ابھی
میں کیسے اس کو رسالت کا آشنا سمجھوں
رقم ہے وقت کے سینے پہ حرف حرف ترا
اس انتہا کو بھی میں تری ابتدا سمجھوں
کرن کرن تری طلعت چمن چمن خوشبو
مری مجال کہاں تیری ہر ادا سمجھوں
نہ پا سکوں نہ کبھی چھو سکوں نہ دیکھ سکوں
میں سوچ بھی نہیں سکتا تجھے خدا سمجھوں
ہوا ہے اب مجھے احساس کم نگاہی کا
زمیں پہ دیکھوں تجھے اور ماورا سمجھوں
یہ شرک کیسے گوارا کروں کہ تیرے سوا
کسی کو بحرِ مصیبت میں نا خدا سمجھوں
میں تیرے در کا گدا ہوں یہ میرے بس میں نہیں
کہ خود کو اور کسی شاہ کا گدا سمجھوں
وہ خار ہوں کہ بہاروں سے بات بھی نہ کروں
وہ دشت ہوں کی تیری زلف کو گھٹا سمجھوں
پکار ہے سرِ افلاک میرے نغموں کی
میں اپنے آپ کو کیوں سازِ بے صدا سمجھوں
مری حیات کا ہر لمحہ تیرے نام ہُوا
تجھی کو اپنی دعا ، اپنا مدّعا سمجھوں
بس ایک بزمِ درود سلام ہے اعظؔم
جہاں خدا کو بھی میں اپنا ھمنوا سمجھوں