میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھا دوں


آنے والی ہے ان کی سواری پھول نعتوں کے گھر گھر سجا دوں

میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا دوں


میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے

اپنی آنکھوں کی چاندی بہا دوں اپنے ماتھے کا سونا لٹا دوں


میرے آنسو بہت قیمتی ہیں اب سے وابستہ ہیں ان کی یادیں

ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گوہر یونہی کیسے لٹا دوں


قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہوں

یا لپٹ جاؤں قدموں سے ان کے یا قضا کو میں اپنی صدا دوں


میں فقط آپ کو جانتا ہوں اور اسی در کو پہچانتا ہوں

اس اندھیرے میں کس کو پکاروں ، آپ فرمائیں کس کو صدا دوں


میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا بھی ارماں یہی ہے

ایک دن ان کی خدمت میں جا کر ان کی نعتیں انہی کو سنا دوں


بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ ور میرے نزدیک آئیں

میں یہیں سے مدینہ دکھا دوں دیکھنے کا سلیقہ بتا دوں

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

ہے نام جن کا احمد ذیشاں تمھیں تو ہو

اے ختم رسل سید ابرار محمد

ہوا جب گرم بازار محمد

پھر نبی کی یاد آئی زلف شہگوں مشکبار

رتبہ یہی دیا ہے تری چوکھٹ کو خدا نے

جمال روئے انور پر بھلا کیونکر نظر ٹھیرے

گرفتار بلا دنیا میں دنیا دار رہتے ہیں

زیارت ہو مجھے خیر البشر کی

آپکی فرقت نے مارا یا نبی

دی خبر اب تو مری بے خبری نے مجھ کو