میں نے جب آپ کی دہلیز کو آقاؐ چوما
یوں لگا آپ نے جیسے مرا ماتھا چوما
ہونٹ فارغ ہوئے پل بھر کو نہ آنکھیں میری
کبھی جالی کبھی روضہ کبھی پردہ چوما
آپ کے خواب میں دیکھا تو مقدر جاگے
جھوم اٹھا نعت پڑھی رو دیا لپٹا چوما
ان کے قدموں کی طرف لے گئے جب ہونٹ مجھے
ہونٹ بھی نقش قدم بن گئے اتنا چوما
سفر عرش پہ لے جانے کو جبریل جب آئے
اپنے رخسار سے مہتاب کف پا چوما
سنگِ اسود کو دیا بوسہ تو محسوس ہوا
سنگِ اسود کو نہیں ہاتھ خدا کا چوما
میں بتاتا ہوں تمہیں عشق نوردی کیا ہے
ایک آہٹ کے لیے سارا مدینہ چوما
شہد سا دوڑ گیا ہے مری شریانوں میں
جب کبھی پڑھ کے درود اپنا انگوٹھا چوما
منزلیں رہتی ہیں سینے میں مظفر میرے
وہ جدھر سے بھی گئے ہیں میں نے وہ رستہ چوما