مشغلہ ہو یہی بس یہی رات بھر
گنگناؤں میں نعتِ نبی رات بھر
سبز گنبد کے جلوے بکھرتے رہیں
نعت پڑھتی رہے چاندنی رات بھر
مصطفےٰ جانِ رحمت میں پڑھتا رہوں
سبز گنبد کے آگے کبھی رات بھر
جب مدینے میں دیکھا فلک کی طرف
تھی قمر کی چمک میں کمی رات بھر
پُر خطر تھی شبِ ہجرتِ مصطفےٰ
پُر سکوں نیند میں تھے علی رات بھر
یا خدا ساعتیں ایسی کر دے عطا
ہو درِ پاک پر حاضری رات بھر
یا نبی ایسا لطف و کرم کیجئے
نعت لکھے شفیقؔ آپ کی رات بھر