محشر میں محمد کا عنوان نرالا ہے
امت کی شفاعت کا سامان نرالا ہے
خوبی و شمائل میں ہر آن نرالا ہے
انسان ہے وہ لیکن انسان نرالا ہے
تزئین شب اسری دیکھی تو ملک بولے
کیا آج خدا کے گھر مہمان نرالا ہے
اقلیم محبت کی دنیا ہی نرالی ہے
دربار انوکھا ہے سلطان نرالا ہے
مستوں کے سوا تجھ کو سمجھا نہ کوئی سمجھے
اے پیر مغاں تیرا عرفان نرالا ہے
وہ مصحف رخ دل میں آنکھوں میں تصور ہے
البیلی تلاوت ہے قرآن نرالا ہے
پھولوں میں مہکتا ہے بلبل میں چہکتا ہے
جلوہ تیری صورت کا ہر آن نرالا ہے
اس مصحف عارض کو قرآن سمجھتے ہیں
ان اہل محبت کا ایمان نرالا ہے
کعبہ ہو کہ بت خانہ مکتب ہو کہ میخانہ
ہر جا پہ تیرا جلوہ اے جان نرالا ہے
مضمون اچھوتے ہیں مفہوم انوکھے ہیں
دیوانوں میں بیدم کا دیوان نرالا ہے
شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی
کتاب کا نام :- کلام بیدم