مرا راز کب مرا راز ہے اسے کس طرح رکھوں راز میں
مری زندگی مری آبرو تو ہے دستِ بندہ نواز میں
ہوا رازِ خاص بھی منکشف نہیں کچھ بھی پردہء راز میں
جو چھُپا تھا پردہء راز میں وہ عیاں ہوا ہے حجاز میں
یہ جو پانچ وقت ہیں سر جھُکے یہ جو بندے بندہ نما بنے
یہ اسی کے لطف کا فیض ہے کہ جھُکے ہیں دل بھی نماز میں
یہ اسی نے پردہ اُٹھا دیا یہ اُسی نے سب کو بتا دیا
نہیں فرق ذرّہ و مہر میں نہیں فرق شاہ و ایاز میں
میں یہ سمجھوں مجھ کو عطا ہوئی نئی سر خوشی نئی زندگی
اگر ایک بار بھی جا ملے مجھے سر زمین حجاز میں
کوئی جانے کیا یہ حقیقتیں یہ حقیقتیں ہیں حقیقتیں
وہی نغمہ پردہء قلب میں وہی نغمہ پردہء ساز میں
صبا وردِ دل بہ حضور کہہ بہ قریب کہہ کہ بہ دُور کہہ
مرا حالِ زار ضرور کہہ جو گذر ہو تیرا حجاز میں