میری آنکھیں دیکھنا چاہیں وہ دریا نُور کا
دُور تک پھیلا ہوا معصوم صحرا نُور کا
مجھ کو ہے ایسے مقدس پیڑ کی کب سے تلاش
ٹہنی ٹہنی جس کی خوشبو ، پتا پتا نُور کا
جس کو دیکھے سے غلاموں کو شہنشاہی ملے
کاش نظروں میں سما جائے وہ چہرہ نُور کا
جس کے رستے میں بچھی ہیں کہکشائیں بے شمار
اُسؐ کی ساری فوج نوری اسؐ کا خیمہ نُور کا
اُسؐ کا سارا جسم ہے مہکا ہوا مثلِ گلاب
اُسؐ کی آنکھیں نُور کی اُس کا سراپا نُور کا
کون کہتا ہے کہ ہے محدود اُسؐ کی روشنی
چاند ہے وہ اور اُس کا گھر ہے سارا نُور کا
کس قدر انجؔم ہیں اُسؐ کی پاک ساری دلہنیں
کس قدر ہے خوبصورت اُس کا سہرا نُور کا