میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول
میں کسی اور تجسّس میں رہوں نا ممکن
جالیاں روضہء اقدس کی یہ دیکھ آیا ہے
اور لے جائے کہیں میرا جنوں نا ممکن
بخش دیتا نہیں جب تک مری اُمت کو خدا
بولے سرکار کہ اس دل کو سکوں نا ممکن
سر کے بل چل کے بھی تھکتا نہیں مدحت میں قلم
میں اُٹھاؤں تو یہ کہتا ہے اُٹھوں نا ممکن
ان کی سیرت سے بیگانگی ورنہ لوگو !
اُن کی اُمت کا ہو یہ حالِ زبوں نا ممکن
ایک شب آپ نے بخشا مجھے اپنا دیدار
ماسوا اس کے تمنّا میں کروں نا ممکن
اُن کی زُلفوں کی ہوا کھائی تو بولی یہ صبا
اب کسی گُل میں گزارا میں کروں نا ممکن
جو محمد کا ہے دیوانہ وہ د ل ہے آزاد
کوئی چاہے اسے قابو میں کروں نا ممکن
وہ جسے چاہیں ادیبؔ اس کو عطا کرتے ہیں
ہر کسی کو ملے یہ سوزِ دروں نا ممکن