میرے لفظوں میں شمس الضحیٰ ہے

میرے لفظوں میں شمس الضحیٰ ہے مرے لہجہ میں بدر الدجیٰ

مشعلِ مدحتِ مصطفیٰ ہوں ، ہر اندھیرے کو میں جگمگا دوں


ایسی اک نعت لکھنے کی یارب مجھ کو تو فیق دے زندگی میں

ان کی زُلفوں کی خوشبو سنگھاؤں ان کے قدموں کی آہٹ سنادوں


اک یہی آرزو رہ گئی ہے ، ان کے دربار تک ہو رسائی

اپنی پیشانی اس در پہ رکھ دوں ساری دنیا کو پھر میں بھُلا دوں


وہ میری شاعری میرا فن ہیں ، میں سخن ہوں وہ جانِ سخن ہیں

اپنا سب کچھ انہیں کا دیا ہے ، اپنا سب کچھ انہیں پر لُٹا دوں


قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہوں

یا لپٹ جاؤں قدموں سے ان کے یا قضا کو پھر اپنی صدا دوں


مری بخشش کا ساماں یہی ہے میرے دل کا بھی ارماں یہی ہے

ایک دن ان کے روضہ پہ جا کر ان کی نعتیں انہیں کو سنا دوں


ہے تمنّا کے ڈھل جاؤں یا رب ، پیکر اُسوہء مصطفےٰ میں

مسکراؤں اگر سنگ برسیں ہر بُرے کو بھلی سی دُعا دوں


عشق ہے آگ ، آنسو ہے پانی ، دونوں یک جا ہیں عشقِ نبی میں

یہ کرشمہ ہے نعتِ نبی کا ، جب کہو یہ کرشمہ دکھا دوں


کاش آئے ان کی سواری ، اے ادیبؔ ان کے قدموں کے نیچے

کھینچ کر روح کو تن سے باہر اس کی چادر بنا کر بچھا دوں