محبت میں سب کچھ گوارا کروں میں
سبھی منظروں سے کنارا کروں میں
شب و روز یونہی گزارا کروں میں
’’حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان اُن پر نثارا کروں‘‘
مجھے جیسا چاہے شہا ویسا کرلے
غلام اپنا مجھ کو شہِ بطحا کرلے
جہاں ’’میرا تیرا‘‘ نہ ہو ایسا کرلے
’’مجھے اپنی رحمت سے تو اپنا کر لے
سوا تیرے سب سے کنارا کروں میں‘‘
میں حالات اپنے کسی کو بتائوں
کسی اور کو اپنی بپتا سنائوں
نہیں مجھ کو منظور ذلت اٹھائوں
’’ میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جائوں
تِرے در سے اپنا گزارا کروں میں‘‘
تمنا نہیں اور لچھ دل کے اندر
نظر سیر ہو روئے انور کو چھو کر
اے ماہِ منور اے میرے پیمبر
’’خدارا اب آئو کہ دم ہے لبوں پر
دمِ واپسیں تو نظارا کروں میں‘‘
ہوں میں ایک شہرِ محبت کا راہی
مِرے جذبے دیتے ہیں اس کی گواہی
اے جانِ عقیدت اے شانِ الٰہی
’’مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تِری کفشِ پا پر نثارا کروں میں‘‘
تِرے ذکر میں عمر اپنی بِتائوں
سِوا تیرے کچھ بھی زباں پر نہ لائوں
تِری نعت لکھوں تجھے گنگنائوں
’’دمِ واپسیں تک تِرے گیت گائوں
’’محمد ﷺ محمد ﷺ پکارا کروں میں
عمل میرے ایسے نہیں ہیں جو چمکیں
اجالا کریں گی عقیدت کی شمعیں
سرہانے مِرے آکے میری لحد میں
’’مِرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں
تمہاری ہی جانب اشارا کروں میں‘‘
لرزتے ہیں آنسو ابھی چشمِ نم میں
اضافہ ذرا اور کردے کرم میں
تمنا ہے یہ جب تلک دم ہے دم میں
’’خدا ایسی قوت دے میرے قلم میں
کہ بدمذہبوں کو سُدھارا کروں میں‘‘
بجز حُبِ ربُ العلا ، عشقِ احمد
نہیں زندگی کا کوئی اور مقصد
انہیں دو کے قبضے میں ہے دل کی سرحد
’’خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمدﷺ
اگر قلب اپنا دو پارا کروں میں‘‘
نہیں ہے شفیقؔ اب کوئی شے ضروری
یہی فکر ہے دور ہو کیسے دوری
تمنا یہی، یہ تمنا ہو پوری
’’خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوریؔ
مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں‘‘