مجھ کو مال و زر نہ گوہر چاہیے

مجھ کو مال و زر نہ گوہر چاہیے

یا خدا حُبِ پیمبر چاہیے


ہجرِ طیبہ میں تڑپنے کے لیے

چشمِ پرنم، قلبِ مضطر چاہیے


ایک قطرہ ہی کرم کا ہے بہت

کب کہا میں نے سمندر چاہیے


سرمۂ چشمِ عقیدت کے لیے

مجھ کو خاکِ کوئے سرور چاہیے


آرزو جاگی ہے دیدِ خلد کی

آنکھ کو طیبہ کا منظر چاہیے


مقصدِ ہستی کو پانے کے لیے

حُبِ احمد خوفِ داور چاہیے


کیجیے نافذ نظامِ مصطفیٰؐ

واقعی گر نظم بہتر چاہیے


مل غبارِ خاکِ طیبہ جسم پر

نسخۂ کامل شفا گر چاہیے


مل گیا ہے نعت گوئی کا شرف

مجھ کو کیا اب اس سے بڑھ کر چاہیے


احسؔنِ عاصی کو آقاؐ حشر میں

آپ کی رحمت کی چادر چاہیے