مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے
مجھے بھی اعزازِ مدحِ سرور ملا ہوا ہے
وہ خوش مقدر شہانِ دنیا سے معتبر ہے
جسے مدینے کے شاہ کا در ملا ہوا ہے
ہمیں ہو تشنہ لبی کا ڈر کیوں بروزِ محشر
ہمارے آقا کو آبِ کوثر ملا ہوا ہے
نگاہ جنت کی دل کشی میں نہیں الجھتی
کہ اس کو سنگِ درِ منور ملا ہوا ہے
ہوائے بطحا سے ایسا محسوس ہو رہا ہے
کہ جیسے مشکِ ختن میں عنبر ملا ہوا ہے
تمام سوچیں سنہری جالی پہ مرتکز ہیں
مرے خیالوں کو ایک محور ملا ہوا ہے
قدم قدم اسمِ مصطفیٰ رہنما ہے میرا
ہزارہا شکر ایسا رہبر ملا ہوا ہے
میں یادِ طیبہ میں قطرہ قطرہ بہا رہا ہوں
مجھے پسِ آنکھ اک سمندر ملا ہوا ہے
تمنا کرتے رہے ہیں جس کی نبی و مرسل
ترے غلاموں کو وہ مقدر ملا ہوا ہے