مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے ،اب ملے ہم کو آسودگی یا نبی
اپنے در کی گدائی عطا کیجئے تا کہ آسان ہو زندگی یا نبی
سنگِ در پر جو ہم کو ٹھکانہ ملے ، دور ہو جائے آزُردگی یا نبی
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی
اے غریبوں کے ملجا و ماوٰی شہا ! آپ کی جب ولادت کا چرچا ہوا
پنجہء جور میں تھے جو جکڑے ہوئے اُن غُلاموں کا مورال بہتر ہوا
اُمّتی تیرا سرکار! اے چارہ گر ! درجہء خیر سے گر کے کم تر ہوا
اے نویدِ مسیحا تری قوم کا حال عیسٰی کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اِس کے کمزور اور بے ہُنر ہاتھ سے چرخ نے چھین لی برتری یا نبی
کر کے گُمراہ فرقوں میں بانٹا ہمیں ،اِن شیاطیں کے حملوں کی یلغار نے
ہم گناہوں کی دلدل میں دھنستے گئے،یوں پھنسایا ہے غیروں کے افکار نے
گہری دلدل سے کیسے نکلتے بھلا، پیس ڈالا گناہوں کے انبار نے
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے،تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تُجھے،ہم سے ناکردہ کار اُمّتی یا نبی
گُمرہی کے اندھیرے مرے چار سُو،کاش چھٹ جائیں فوراً ہے یہ آرزو
ہر جگہ ہو رہی ہے یہی گُفتگو ، کیسے جائیں گے آقاترے رُوبرو
تیری چشمِ کرم کا ہے بس آسرا ، حشر میں جو کرے گی ہمیں سُرخرو
دُشمنِ جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیّر ہے پُرسیدنی ، صورتِ حال ہے دیدنی یا نبی
چلتے پھرتے تو لگتا ہے انسان ہے، آدمیت کا انساں میں فُقدان ہے
جانور سے بھی بدتر ہوا آدمی ، جانور اِس کی حالت پہ حیران ہے
کام اِس کا ہے باہم گلے کاٹنا،نام کا ہی فقط آج انسان ہے
رُوح ویران ہے آنکھ حیران ہے،ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گُلشنوں، شہروں ، قریوں پہ ہے پَرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یا نبی
اب حیا کا تصور بھی ناپید ہے ، بس غنیمت ہے تن پر اگر جَیب یے
جب سے بہتان و غیبت وطیرہ ہوا، تب سے خُلقِ حسن مطلقاً غیب ہے
خوف ، دل سے خُدا کا تو رخصت ہوا، اب تو تھانہ کچہری ہے یا نَیب ہے
سچ مرے دور میں جُرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنّ عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی، ایک آزار ہے آگہی یا نبی
ماسوا آپ کے میرا کوئی نہیں ، دردِ دل اپنا جا کر بتاؤں کسے
میرے غم کا ہو کیسے مداوا شہا ! اپنے دُکھڑے میں جا کر سُناؤں کسے
رنج و غم سے جگر میرا چھلنی ہوا ، اپنے زخمِ جگر میں دکھاؤں کسے
رازداں اِس جہاں میں بناؤں کسے، بہرِ امداد آقا! بلاؤں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشہ بنوں، کیوں کروں دوستوں کو دُکھی یا نبی
غم کا صحرا ، مسافر ہوں میں جاں بلب، دور مجھ سے ہوئے ہمسفر سب کے سب
تپتے صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر، کر رہا ہوں میں رحمت کا بادل طلب
تیرے دستِ کرم کو شہا دیکھ کر، رحمتِ حق تعالٰی بھی برسے گی تب
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہِ عرب، تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخِ تمنّا مری، کب مٹے گی مری تشنگی یا نبی
جس گلی سے گزر ہو گیا ہے ترا، راہ کے بام و در سارے مہکا دیے
دیکھتے دیکھتے اپنی مسکان سے، غمزدہ ، شاہِ عالم نے بہلا دیے
بدر کے دن جلیل اُس کے ہاتھ اٹھے، خُون سارے غُلاموں کے گرما دیے
یا نبی اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دُھندلا دئے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی