نعت کیا لکھوں؟ تخیل ورطۂ حیرت میں ہے
رشتہِ لفظ و قلم بھی قریۂ حیرت میں ہے
کیا سمجھ پائے کوئی اسرارِ معراجِ نبی
عقلِ کائنات ابھی تک قبضۂ حیرت میں ہے
کھوجنے بیٹھا ہے جو بھی شانِ محبوبِ خدا
اس کی منزل لا محالہ تختۂ حیرت میں ہے
مسکنِ جبریل تک بھی ہو جو پروازِ سخن
انتہائے فکر پھر بھی جملۂ حیرت میں ہے
خوشبوئے نعلین سے یہ آج تک نکلے نہیں
وسعتِ افلاکِ سبعہ حلقۂ حیرت میں ہے
سر جھکائے، ہاتھ باندھے جنت الفردوس بھی
گنبدِ خضرٰی کے آگے پردۂ حیرت میں ہے
نسبتِ دست و قدم جب سے ملی فاران پر
تب سے مہتابِ فلک بھی حُلیۂ حیرت میں ہے
روبروئے عشقِ اصحابِ محمد مصطفیٰﷺ
عقل صدیوں سے رکوع و سجدۂ حیرت میں ہے
کربلا پڑھتی ہے اُن کی آل پر اب تک درود
ہے نمازِ کربلا جو کعبۂ حیرت میں ہے
میں بھٹک سکتا نہیں کہ طیبۂ حیرت میں ہوں
جو بھٹک جاتا ہے، شہرِ کوفۂ حیرت میں ہے
ہاتھ اٹھا بیٹھے ہیں پیرانِ سخن کہتے ہوئے
جلوہِ مدحِ پیمبر کوچۂ حیرت میں ہے
دیکھ لے گی اپنی منزل حشر میں محمود پر
بزمِ دنیا تو ابھی تک رستۂ حیرت میں ہے
جس نے دعوٰی کر لیا ادراک کا، وہ تو گیا
وہ بہت محفوظ ہے جو پہرۂ حیرت میں ہے
لطفِ ہجرِ مصطفٰی سے جو شناسا ہی نہیں
اس کو کیا معلوم کیا کیا جلوۂ حیرت میں ہے
شوقِ دیدِ حُسنِ منزل ہے تو پہلے دیکھئے
درد کس حد تک صدائے نوحۂ حیرت میں ہے
محوِ حیرت ہے تبسم اِس عطائے خاص پر
ایک بحرِ بے کراں اِس خطبۂ حیرت میں ہے