نعت سنتا رہوں نعت کہتا رہوں آنکھ پُر نم رہے دِل مچلتا رہے
نجم نامِ محمدؐ زباں پہ رہے ‘ ذکر ہوتا رہے ‘ سانس چلتا رہے
بے سہاروں کا کوئی سَہارا نہیں ‘ مصطفےٰ کے سِوا تو گزارا نہیں
اُن کی چشم کرم ہو تو کچھ غم نہیں ‘ چاہے سارا زمانہ بدلتا رہے
عشقِ احمدؐ سی دنیا میں نعمت نہیں ‘مال و زر کی بھی کوئی حقیقت نہیں
بادشاہوں سے بہتر بھکاری ہے وہ اُن کے در پر جو ٹکڑوں پہ پلتا رہے
کیا بھلا آسکیں زندگی کے مزے دور رہ کر حبیبِ خدا سے مجھے
اُس کی حالت کروں تو کروں کیا بیاں ‘ ہر گھڑی دل جو فرقت میں جلتا رہے
یہ دعا ہے سلامت سدا غم رہے تا ابد رابطہ اس سے قائم رہے
آتشِ عشِق ہر دَم بھڑکتی رہے خون روتا رہوں دِل پگھلتا رہے
مصطفےٰ کی نظر جس گھڑی ہوگئی اس کی تقدیر کھوٹی کھری ہوگئی
اس کو ٹھکرائے سارا جہاں بھی اگر ‘ گرنے والا مگر پھر سنبھلتا رہے
نجمؔ کی اے خدا آرزو ہے یہی ‘ عاشقِ زار کی آبرو ہے یہی
آخری وقت سر اُن کے قدموں پہ ہو‘ دید ہوتی رہے دم نکلتا رہے