نہیں ہے دعوےٰ مجھے کوئی پارسائی کا

نہیں ہے دعوےٰ مجھے کوئی پارسائی کا

سہارا بس ہے ترے در سے آشنائی کا


تمہارے چاہنے والوں میں کمتریں ہوں مگر

مری جبیں پہ نہیں داغ بے وفائی کا


امیر سارے جہاں کے اسے سلام کریں

ہے جس کے ہاتھ میں کاسہ تری گدائی کا


ترے کرم نے کیا سب سے بے نیاز مجھے

نہیں ہے خوف زمانے کی کج ادائی کا


جہاں پہ اور دوا کوئی کارگر نہ ہوئی

اثر پڑا ہے ترے نام کی دُہائی کا


ظہوریؔ روز بلا کے مجھے وہ سنتے ہیں

صلہ ملا ہے مجھے میری خوش نوائی کا