نصیب چل مجھے لے چل پئے سلامِ حبیب

نصیب چل مجھے لے چل پئے سلامِ حبیب

تڑپ رہا ہوں زمانے سے حاضری ہو نصیب


طبیبِ عشق کے در پر مری قضا آئے

وہ مجھ کو دیکھے میں دیکھوں جمالِ روئے طبیب


غریب جان کے ٹھکرا دیا جہاں نے مجھے

سنے گا کون تمہارے سوا صدائے غریب


حبیبِ پاک سے ملتا خدا سے ملنا ہے

بڑا کرم ہو کہ مل جائیں نقشِ پائے حبیب


نصیب سنگِ حرم تیری رفعتو ں کے نثار

بنا دے سنگِ مدینہ کبھی مرے بھی نصیب


حبیبِ رب کی ثناء میں جو کہہ سکے کہہ جا

بہت بلند ہے تیرے سخن سے شانِ حبیب


ادیبؔ حشر میں نعتوں کا یوں صلہ پاؤں

حضور حکم سنائیں کہ ہاں سناؤ ادیبؔ