نور پھیلا رچی بسی خوشبو

نور پھیلا رچی بسی خوشبو

آئی جس دم پیمبری خوشبو


بولتے ہی مشامِ جاں مہکا

مرحبا نامِ پاک کی خوشبو


میرے سرکار کے مدینے میں

کوچہ کوچہ گلی گلی خوشبو


مشک و عنبر کو مات دیتی ہے

اے شہِ ذوالمنن تِری خوشبو


ان کے تن سے پسینہ پھوٹ پڑا

اور ہر سو بکھر گئی خوشبو


راستے بھی مہکنے لگتے تھے

تھے سراپا مِرے نبی خوشبو


پڑھ کے دیکھو کبھی کلامِ شفیقؔ

پاؤ گے تم زبان کی خوشبو