اوجِ آسماں کو بھی زیرِ آسماں دیکھا

اوجِ آسماں کو بھی زیرِ آسماں دیکھا

عرش کے برابر ہے ہم نے وہ مکاں دیکھا


واہ کیا مدینہ ہے رات ہو کہ دن ہر دم

ہر ہوا کے جھونکے کو ہم نے مدح خواں دیکھا


دھوپ دیکھی سائے میں سائبانِ رحمت کے

سو رہی تھی ٹھنڈک میں دھوپ کو جہاں دیکھا


بوند بوند پانی کی شہد کو جو شرما دے

چہرہ چہرہ ذرّوں کا ، حسنِ کہکشاں دیکھا


زائروں کے تلوے خود حال یہ سناتے ہیں

ریت مخملی دیکھی ، خارِ نرم جاں دیکھا


اشک آئے مژگاں پر شوق میں حضوری کے

باوضو ہوئیں پلکیں آب جب رواں دیکھا


نغمگی ہواؤں میں شاعری فضاؤں میں

ایسا کب کہاں ہو گا ہاں مگر وہاں دیکھا


سب کی جھولیاں بھر کر جو کہے کہ مانگو اور

اس سخی کا در دیکھا اس کا آستاں دیکھا


عاصیوں کو تسکین ہے ، دل جلوں کو راحت ہے

یہ سِوا مدینے کے آنکھ نے کہاں دیکھا


نام لو محمد کا اور پار لگ جاؤ

رب کو اُن کی اُمت پر اتنا مہرباں دیکھا


اُسوۂ محمد پر گامزن ہوئے جو بھی

ان کو سرخرو پایا ان کو کامراں دیکھا


جن کے جن کے ہاتھوں سے دامنِ نبی چھوٹا

تنگیٔ زمیں دیکھی دشمن آسماں دیکھا


فن کے قدر دانوں میں فن ہی قدرو قیمت ہے

دل ادیبؔ کا صاحب کس نے اور کہاں دیکھا

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

رحمت دو جہاں پر سلام

کرم کی بادل برس رہے ہیں دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے

ہم رسولِ مَدَنی کو نہ خدا جانتے ہیں

کملی والیا نظر کرم دی کر جانا

ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

پھر مدینے کو چلا قافلہ دیوانوں کا

پاس جس کے زرِ حُبِ شہِ ابرار ہے بس

روز محشر مصطفیٰ کی شان و عظمت دیکھنا

یاد آتے ہیں مدینے کے اُجالے مجھ کو

روزِ ازل خالق نے جاری پہلا یہ فرمان کیا