قلب کی التجا مدینہ ہے
مقصدِ ہر دُعا مدینہ ہے
ذرّہ ذرّہ وہاں کا ہے گلشن
ہاں عجب پُر فضا مدینہ ہے
کون ہے جو نہیں وہاں کا غلام
دہر کا آسرا مدینہ ہے
کہہ رہے ہیں یہ دوجہاں والے
نازشِ دوسرا مدینہ ہے
وہیں جلتے ہیں جبریل کے پر
خود سمجھ لو کیا مدینہ ہے
ہے ہر اک آئینہ کو حیرانی
کِس قدر با صفا مدینہ ہے
مجھ سے کیا پوچھتے اے بہزؔاد
ہاں مرا مدُعا مدینہ ہے