قیامت ہے اب انتظارِ مدینہ
الٰہی! دِکھا پھر دیارِ مدینہ
مِری رُوح آئینہ دارِ مدینہ
مِرے دیدہ و دل نثارِ مدینہ
اِسی آرزو میں مِٹا جا رہا ہُوں
مِری خاک ہو ہمکنارِ مدینہ
شفاعت مسلَّم، جو مِل جائے مجھ کو
پئے دفن ، قُرب و جوارِ مدینہ
سِتم کا نشانہ مِری زندگی ہے
کرم کی نظر شہریارِ مدینہ
مُعطّر ہوئی جاں ، کِھلا غُنچہ دل
چلی جب نسیمِ بہارِ مدینہ
یہ دُوری نہیں حدِّ پاسِ ادب ہے
اِدھر مَیں ، اُدھر تاجدارِؐ مدینہ
پیا تھا بس اک جام اُس میکدے سے
نہیں ٹوٹتا اب خُمارِ مدینہ
تصّور میں ہے آمد و رفعت شہؐ کی
کھڑا ہُوں سرِ رہگزارِ مدینہ
اُسے مِل گئی دین و دُنیا کی دولت
ہُوا دل سے جو خواستگارِ مدینہ
لگا لُوں گا آنکھوں میں سُرمہ سمجھ کر
اگر ہاتھ آئے غبارِ مدینہ
اُبھرنے کو ہیں سبز گُنبد کے جلوے
ذرا صبر! اے بے قرارِ مدینہ
نصیرؔ اپنی کوشش نہیں کام آتی
بُلاتے ہیں خود تاجدارِؐ مدینہ
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست