ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

ثانی ترا کونین کے کشور میں نہیں ہے

بس حد ہے کہ سایہ بھی برابر میں نہیں ہے


ہو جلوہ محبوب کے کیا ماہِ مقابل

اس چاند کے دھبہ رُخ انور میں نہیں ہے


کُل خونیاں اللہ نے حضرت کو عطا کیں

یہ بات کسی اور پمیبر میں نہیں ہے


ہو کیوں نہ خدائی کو گدائی کی تمنا

کیا چیز ہے جو ان کے بھرے گھر میں نہیں ہے


اعمال بُرے ہیں مری امداد کو آوؔ

حامی کوئی جُز آپ کے محشر میں نہیں ہے


میں ہوں وہ گنہگار جسے کہتے ہیں نیکی

یہ لفظ میرے جرم کے دفتر میں نہیں ہے


ہیں عیب ہزاروں تو جسے چاہے بنا دے

اللہ ہنر ایک بھی اکبر میں نہیں ہے