سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے
بے عمل خاطی ہوں لیکن مُصطفٰےسے پیار ہے
پاک رکھ بُغض و حسد کی گرد سے اِس کو، اگر
اپنے من کے آئینے میں روشنی درکار ہے
اہلِ ذر ، نادار و بے کس ، آ رہے ہیں سب یہاِں
سب کو یکساں دے رہا ہے ، وہ ترا دربار ہے
انبیا و مُرسلیں پہنچے نہیں اس اوج پر
جو گیا معراج پر وہ سیّدُ الابرار ہے
انبیاء پیچھے کھڑے ہیں ہاتھ باندھے صف بہ صف
آج ہے جو مُقتدا وہ احمدِ مُختار ہے
آپ کی سُنّت رہا جس کا وطیرہ عُمر بھر
دو جہاں میں باخُدا ! اُس کا ہی بیڑہ پار ہے
گرچہ ہوں رنج و الم کے ایک صحرا میں مگر
غمزدوں کا چارہ گر آقا مرا غمخوار ہے
نافعِ مخلوق ہے اچھا زمانے میں جلیل
من کی تختی پر لکھو ! یہ گُفتۂ سرکارْ ہے