سارے عالم میں انوار کی روشنی
چار سُو ان کے افکار کی روشنی
تیرگی میرے من میں ہو کیسے بھلا
میرے اندر ہے سرکارؐ کی روشنی
پھر زمانے میں جھکتے نہیں ان کے سر
جن کے ہاتھوں میں تلوار کی روشنی
ان کے گھر میں رہے گا اندھیرا سدا
جن کو مطلوب اغیار کی روشنی
فصل بوتے ہیں جو حُسنِ اعمال کی
ان کو ملتی ہے اثمار کی روشنی
قافلے وہ ہی منزل تلک جا سکے
جن کو حاصل تھی سالار کی روشنی
جس نے ارض و سما کو منّور کیا
منبعِ نُور تھی غار کی روشنی
ٹھیرے ان کے صحابہ نجومِ فلک
مثلِ سورج ہے سردار کی روشنی
وہ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا کہیں
ان کے صدقے ہے سنسار کی روشنی
جب سے چوما ہے عُشّاق نے دار کو
بس امر ہوگئی دار کی روشنی
ہیں جلیل اس جہاں میں وہی سرخرو
جن کے دامن میں کردار کی روشنی