شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم
سماں کیا خوب تھا مسعود شب جائے کہ من بودم
ملائک دست بستہ تھے سلامی کے لئے حاضر
فضا تھی مشک عنبر عود شب جائے کہ من بودم
نگاہوں میں تجلی دیکھ سکنے کی سکت کم تھی
جمالِ شاہ تھا افزود شب جائے کہ من بودم
فقط دو نین تھے فرقت کے سارے دکھ سنانے کو
کہ صوت و حرف تھے مفقود شب جائے کہ من بودم
اکٹھے کر رہا تھا کچھ معطر حرف قرآں سے
ثنا تھا مقصد و مقصود شب جائے کہ من بودم
سجی تھی مجلسِ مدحت سبھی تھے سر بہ خم شاعر
’’محمد میرِ مجلس بود شب جائے کہ من بودم‘‘
عطا، وہم و گماں سے بھی ورا تھی شاہ کی لیکن
طلب میری رہی محدود شب جائے کہ من بودم