شمس و قمر کی اور نہ اقصیٰ کی روشنی
میری طلب ہے گنبدِ خضرا کی روشنی
جی چاہتا ہے آنکھوں میں اپنی سمیٹ لوں
صُفّہ کی ‘ جالیوں کی ‘ مصلّٰی کی روشنی
مہرومہ و نجوم کا اب کیا کروں گا میں
دل میں بسائے بیٹھا ہوں طیبہ کی روشنی
دیکھا ہے میں نے ان کو تصور میں بارہا
پہچانتا ہوں میں رُخِ زیبا کی روشنی
روشن ہو جس سے قبر وہ تنویر چاہیئے
میں کیا کروں گا لے کے یہ دنیا کی روشنی
جس جس روش سے گزرے ہیں ہو کر کبھی حضور
باقی ہے اُن میں اب بھی کفِ پا کی روشنی
آنکھو ں کی روشنی مری اتنی اہم نہیں
منزل ہے میری روزنِ آقاؐ کی روشنی
مسکن ہو عائشہ کا کہ مدفن شیوخ کے
ان سب سے مل کے بنتی ہے عقبیٰ کی روشنی
پڑھتی ہے آکے روضہء اطہر پر خود درُود
حکمِ خدا سے عرشِ مُعلی کی روشنی
اب تک تو ہم کو اِذنِ زیارت نہیں ملا
اب دیکھیں کیا دکھاتی ہے فردا کی روشنی