شاخِ گل پر چہچہاتے ہیں اسیرانِ قفس

شاخِ گل پر چہچہاتے ہیں اسیرانِ قفس

دہر میں تشریف لائے غم زدوں کے داد رس


آگئے دینے رہائی ظلم و استبداد سے

ہر یتیم و بے کس و مظلوم کے فریاد رس


آپ آئے آگئی کونین میں فصلِ بہار

شادماں ہیں بلبل و گل، شاد ہیں مور و مگس


آپ نے بخشا زمانے کو شعورِ بندگی

عابد و زاہد ہوئے سب بندۂ حرص و ہوس


جس کو جو چاہیں عطا کردیں پیمبر بے حساب

رب نے بخشے ہیں انھیں وہ اختیار و دسترس


وہ ضعیفہ آپ کے اخلاق پر شیدا ہوئی

راہ میں سرکار کے جو ڈالتی تھی خار و خس


وقت ہے سرکار کی سنت میں خود کو ڈھال لے

کیا خبر ہے ٹوٹ جائے کب ترا تارِ نفس


جیتے جی میں دیکھ لوں دہلیز آقاؐ آپ کی

بارشِ لطف و کرم کر دیجیے اِک بار بس


دیکھو احسؔن جاتے ہیں خوش بخت شہرِ مصطفیٰؐ

آرہی ہے کاروانِ حج کی آوازِ جرس