سکوں دل کو کسی عالم نہیں ہے

سکوں دل کو کسی عالم نہیں ہے

مرے زخموں کا کیا مرہم نہیں ہے


مرا بھی دامن امید بھر دے

کوئی بھی شے ترے گھر کم نہیں ہے


تری یادوں کے ہوں جس دل میں جلوے

وہ دل عرش بریں سے کم نہیں ہے


وه م محروم تمنا ہی رہے گا

جو ترے پیار کا محرم نہیں ہے


غم دل چشم پرنم آہ پیہم

یہی دولت مجھے کچھ کم نہیں ہے


غلام سید عالم ہوں زاہد

قیامت کا مجھے کچھ غم نہیں ہے


رضائے شیخ میں ہستی مٹادی

یہ میرا دم بھی میرا دم نہیں ہے


نگاہ مرشد کامل ہو جس پر

اُسے دُنیا کا کوئی غم نہیں ہے


ہے لا حاصل نیازی ایسا سجدہ

جو سر کے ساتھ دل بھی خم نہیں ہے