تنہائی میں بھیڑ لگا دوں بھیڑ میں پھروں اکیلی
تیری راہ میں لُٹ کر میں نے اپنی قیمت لے لی
نام ترا لے لے کر اپنے آپ کو دوں آوازیں
تیرے اندر ڈوب کے پار اتر گئی میں البیلی
تیرے قدموں پر سر رکھ کر بڑھالیا قد اپنا
اوڑھ کے تیرے لگن کے شعلے تیز ہوا سے کھیلی
رہوں خود اپنی آنکھ سے اُوجھل جب سے تجھ کو دیکھا
جب سے تیرا دامن تھاما چمکے مری ہتھیلی
تیرے دھیان کی دیواروں سے لپٹ کر روؤں
تیری آہٹ سے آباد ہے میری عشق حویلی
نکلی تھی میں تجھے ڈھونڈھنے گم خود کو کر ڈالا
کچھ تیرے انداز نرالے اور کچھ میں البیلی
ہجر کا پنجرہ کھول کے جانے کب تقدیر اڑا دے
بوجھتی رہ جائے گی دُنیا میری درد پہیلی
ٹھاٹھیں مار رہے ہیں مجھ میں عشق کے سات سمندر
جب سے مجھ پر تو نے رحمت کی اک بوند انڈیلی
اُجلے اُجلے کفن میں ڈھانپ کے بوسیدہ تن اپنا
پھر سے میں ایک بار مظفر ہو گئی نئی نویلی