تصّور میں مرے جب چہرۂ خیرالانام آیا
جبیں خم ہوگئی لب پر دُرود آیا سلام آیا
خدا نے آمنہ کی کوکھ سے ظاہر کیا آخر
وہ اک نورِ ازل جو فخرِ آبائے کرام آیا
مناؤ اُس کی آمد پر خوشی ماہِ ولادت میں
کہ محبوبِ خدائے قادرِ یحیِ العِظام آیا
کھڑے تھے انبیا معراج کی شب خیر مقدم کو
امامت کے لیے جب وہ شہِ گردوں خرام آیا
سفر کی دھوپ کی شدّت اگر بڑھنے لگی حد سے
تو اُس بے سایہ پر سایہ لُٹانے کو غَمام آیا
نظر آیا خَجِل خورشید خاور اپنی کرنوں پر
عُروجِ حُسن پر جب ہاشمی ماہِ تمام آیا
سرِ کوثر نہ کیوں اِترائیں اُن کے چاہنے والے
یہ کیا کم ہے کہ اُن کے ہاتھ سے ہاتھوں میں جام آیا
تمناؤں کی مُرجھائی ہوئی کلیاں مہک اُٹھّیں
برنگِ موجۂ خوشبو وہ شاہِ ذی مقام آیا
ہُوا محسوس جیسے مُلتَفِت خود ہوں شہِ بطحیٰ
مرے ہونٹوں پہ جس دم سیّدہ زھرا کا نام آیا
امانت کا تَسلسُل کوئی دیکھے اِس گھرانے میں
حسینؓ ابنِ علی بعدِ حسنؓ بن کر امام آیا
اب اِس کے بعد منزل کیا ہو میری خوش نصیبی کی
تِرا در چُوم کر لَوٹا، تری جالی کو تھام آیا
تری آمد بھی کیا آمد ہے جس آمد کے صدقے میں
ہدایت کی کتاب اُتری، شریعت کا نظام آیا
یہی وہ ہیں کہ ایماں بعدِ توحید اِن پہ لازم
یہی وہ ہیں پسِ اللہُ اکبر جن کا نام آیا
پلانے کا شرف اُن سے رہا مخصوص محشر میں
وہ جب تشریف لائے پھر کہیں گردش میں جام آیا
مزا جب ہو کہ بابِ خُلد پر جس دم نصیرؔ آئے
کہے رضوان! رستہ دو ، محمدؐ کا غلام آیا