طیبہ کی خنک بار ہوا دل میں بسا لوں
مقدور اگر ہو تو میں تقدیر سنواروں
اب اس سے بڑی اور طلب کوئی نہیں ہے
’’آقاؐ کی عنایت کی نظر لے کے چلا ہوں‘‘
محبوبِ دو عالمؐ سے محبت کے تقاضے؟
سو جان خدا بخشے تو میں انؐ پہ لُٹا دوں
آقاؐ مرے کشکولِ تمنا کو ملے بھیک
آقاؐ ترا دیدار میں اک عمر سے چاہوں
ہے کتنی حضوری سے مری دوریِ طیبہ
کوتاہیِ قسمت سے بھلا کیسے میں ماپوں؟
بخشی ہے مجھے انؐ کی ثنائوں نے روانی
سرکارِؐ مدینہ سے ہنر مجھ کو ملا یوں
بے خود کیے دیتے ہیں مدینے کے مناظِر
اس دل کو سنبھالوں کہ نگاہوں کو سنبھالوں
ہر ایک سخن نعت کا مژدہ یہ سنائے
میں راہِ عدم میں تری آنکھوں کی ضیا ہوں
انوارِ رسالتؐ سے درخشاں ہو یہ سینہ
جس وقت بھی میں اسمِ نبیؐ دل سے پکاروں
اے بادِ صبا! لائی ہے طیبہ سے بلاوا
آ ناز اٹھائوں، میں ترے صدقے اتاروں
آنسو ہیں ترے حبِ شہِؐ دیں کی امانت
طاہرؔ نہ بہیں اور کہیں ، اتنا کیوں!