ترے خواب کی راہ تکتی ہیں آنکھیں
غمِ ہجر میں ہی برستی ہیں آنکھیں
بصارت ، بصیرت انہی کی فزوں تر
ترا سبز گنبد جو تکتی ہیں آنکھیں
سمائے ہوں جن میں مدینے کے جلوے
تو ایسی بھلا کب بھٹکتی ہیں آنکھیں
مجھے یاد آتی ہیں طیبہ کی گلیاں
تو بے ساختہ پھر چھلکتی ہیں آنکھیں
تری یاد سے جن کے روشن ہیں سینے
انہیں کی تو ہر دم چمکتی ہیں آنکھیں
رُخِ والضّٰحی پر جو نظریں جمی ہوں
تو بھرتے ہیں جی نہ ہی تھکتی ہیں آنکھیں
مدینے کی مٹی بنی جن کا سرمہ
اندھیروں میں بھی وہ دمکتی ہیں آنکھیں
یہاں کا تعلق سبب معرفت کا
لحد میں نبیؐ کو جو تکتی ہیں آنکھیں
میں فرقت کا دکھ درد کیسے سناؤں
تڑپتا ہے دل اور برستی ہیں آنکھیں
نہیں کام آتی ہے توبہ بھی اس دم
کہ وقتِ نزع جب تھرکتی ہیں آنکھیں
جلیل ایک اسم محمدؐ ہے جس سے
یہ اپنا پرایا پرکھتی ہیں آنکھیں