تِرے خیال نے بخشا ہے یہ قرینہ بھی

تِرے خیال نے بخشا ہے یہ قرینہ بھی

مِری نِگاہ میں کعبَہ بھی ہے مدینہ بھی


یہ بحرِ عِشقِ مُحمؐد میں ڈوب کر دیکھا

ہر ایک مَوج میں ساحِل بھی ہے سفینہ بھی


مِرے کریم کرم سے نواز دے مُجھ کو!

تِرے کرم سے ہو سیراب یہ کمینہَ بھی


وہ جِس سے گلشنِ فردوس بھی معّطر ہے

عجیب ہے مِرے سرکار کا پسینہ بھی


مَجالِ دید کسے ہے مگر جِسے چَاہیں

وہ بخش دیتے ہیں دیدار کا قرینہ بھی


متاعِ زیست بنا لو غمِ محْمد کو

نصیب والوں کو مِلتا ہے یہ خزینہ بھی


تصوّر ِ رُخ جانا کی خیر ہو خالِؔد

دِکھا دیا مجھے قربِ خدا کا زینہ بھی