تیرے میکدے پر نثار میں مجھے کیا غرض کسی جام سے

تیرے میکدے پر نثار میں مجھے کیا غرض کسی جام سے

جو نشہ ہوا میرے ساقیا وہ نشہ ہوا تیرے نام سے


کیوں کسی کا بن کے گدا رہوں نہ فسانہ غم دل کہوں

بھلا کیوں کسی کے میں در جھکوں مجھے کام ہے تیرے کام سے


ایسی گلستاں کی بہار ہوں نہ کسی خزاں سے ہے واسطہ

میں ہوں مطمئن اسی بات پر نہیں رابطے میرے شام سے


جو ملے ہیں جام سرور کے جو کرم ہوئے ہیں حضور کے

مجھے کیسے در پہ بلا لیا کوئی پوچھے آ کے غلام سے


مصطفے کی وہ ساعتیں وہ سرور و کیف کی لذتیں

وہ حبیب پاک کی محفلیں تھیں سجی درود و سلام سے


یہ قدم قدم پر عنائتیں یہ تیرا کرم یہ نوازشیں

جو ملیں نیازی کو عزتیں تیرے نام سے تیرے نام سے