تمہارے رُخسار کی تجلی تجلیء نُورِ سَرمدی ہَے

تمہارے رُخسار کی تجلی تجلیء نُورِ سَرمدی ہَے

یہ مہر و مہ کی ضیا نہیں ہَے تمہارے چہرے کی روشنی ہَے


وُہ جلوۂ ذات سب سے پہلے جو ذاتِ حق سے عیاں ہوا تھا

وہی بنا مشعلِ رسالت یہ چار سو جس کی روشنی ہے


جو وہ بشر ہیں تو ہم بشر کیوں جو ہم بشر ہیں تو وہ بشر کیوں

یہ راز ہَے اِک اسے وہ سمجھے جِسے حقیقت سے آگہی ہَے


جہاں دو عالم امان پائیں جہاں ملائک بھی سَر جھکائیں

وہ دو جہاں میں اک آستاں ہَے اور آستانِ محمدؐی ہَے


زمانہ حیراں کہ اِک بشر آسماں پہ پہنچا تو کیسے پُہنچا

مَیں محو حیرت کہ عرش کی جان فرش پر کِس طرح رہی ہے


مَیں بندگی کو نہیں سمجھتا مگر حقیقت یہی ہَے اعظم

حضورؐ کے در کی خاک بوسی ہی اصل میں جانِ بندگی ہَے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

کبھی درد و سوز بن کر کبھی اشک بن کے آئے

جس کا قصیدہ خالقِ عرش بریں کہے

اے حبیبِ رب اکبر! آپ کے ہوتے ہوئے

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک

انتہاؤں کے سفر کی روشنی ہیں

قسمت اپنی بلند کی ہے

اس کو کیا واسطہ مدینے سے

کمی جو آنے نہ دے محبت میں

آتے رہے میخانے مری راہ گذر میں