وجد میں دل ہے روح پہ مستی طاری ہے
یادوں میں سرکار کی صورت پیاری ہے
رہتا ہوں ہر وقت خیالوں میں ان کے
لطف و کرم سرکار کا مجھ پر جاری ہے
شافعِ محشر سے امید ہے شفقت کی
سر پہ گناہ کا بوجھ اگرچہ بھاری ہے
نیک اعمال نہیں ہیں میرے پاس، مگر
نعت کی چند کتابیں کار گزاری ہے
دکھ مجھ سے کترا کے گزرتے ہیں، جب سے
مجھ کو غلامی کی حاصل سر شاری ہے
روئے منور کا جلوہ دکھلا دیجے
اپنے غلام سے کیسی پردہ داری ہے
آلِ نبی کی الفت رکھنا سینے میں
آلِ نبی کی جنت میں سرداری ہے
ایک جھلک اشفاقؔ عنایت ہو جائے
ہجر کی رت نے وصل کی عرض گزاری ہے