وہ معلّم وہ اُمیّ لقب آگیا
رونق ِ دو جہاں کا سبب آگیا
چھَٹ گئیں کفر و باطل کی تاریکیاں
ہر ضیا لیکے ماہِ عرب آگیا
اسوہِ مصطفےٰ ؐ جس نے اپنالیا
اس کو جینے کا لاریب ڈھب آگیا
روح پر چھا گیا ایک کیف اتم
آپؐ کا نام جب زیرِ لب آگیا
یہ بھی ان کی غلامی کا احسان ہے
مجھ سے نادان کو کچھ ادب آگیا
کتنی حساس ہے ان کی چشمِ کرم
ان کی نظروں میں ہر جاں بلب آگیا
ہے وہ امت حقیقت میں خیرِ امم
جس کے حِصے میں محبوبِؐ رب آگیا
آپؐ آئے تو عصمت مآبی بڑھی
ہر طرف انقلاب اک عجب آگیا
ہل گئی جو تھی بنیادِ غیض و غضب
جب زمیں پر وہ امی لقب آگیا
آسماں تک کھلے راستے فکر کے
نام جب آپؐ کا زیرِ لب آگیا
توڑ کر رکھ دیا ہر غرور ِ نسب
ایسا ہادئِ عالی نسب آگیا
وہ نگاہوں میں ہیں اور کوئی نہیں
جو سمجھ میں نہ آیا تھا اب آگیا
سرجھکائے کھڑا تھا حجاب اٹھ گئے
کام خالدؔ کے حُسنِ طلب آگیا