وہی جو مظہرِ ذاتِ خدا ہے
دوعالم میں اسی کا غَلغلہ ہے
وہی عالم کی وجہِ ابتدا ہے
نبوّت کا وہ حرفِ انتہا ہے
جمال و حسن کا وہ آئینہ ہے
کہ جس کا نام احمد مصطفیٰ ہے
شبِ اسریٰ سے یہ عقدہ کھُلا ہے
یہ گردوں زیرِ پائے مصطفیٰ ہے
مدینہ مرکزِ انوارِ یزداں
مدینہ مسکنِ خیر الوریٰ ہے
نبی کی نعت گوئی کی بدولت
جہاں بھر میں مرا چرچا ہوا ہے
قمر میں آفتاب و کہکشاں میں
نبی کا حسن ہی جلوہ نما ہے
شرف بخشا ہے طیبہ کو نبی نے
یہاں کی خاک میں رکھی شفا ہے
مدینہ طیبہ ہو اس کا مسکن
شکستہ دل کی یا رب یہ صدا ہے
کہا شبیرؔ نے گھر کو لٹا کر
نبی کے دین پہ سب کچھ فدا ہے
چلو شہرِ مدینہ مفلسو تم
غریبوں کا وہی تو آسرا ہے
زبانِ احمدؔ خستہ جگر پر
محمدﷺ مصطفیٰ صلِّ علیٰ ہے