یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے

یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے ، بہت دن بیتے

اس دوری سے تو بہتر تھا اور نہ اب ہم جیتے ، بہت دن بیتے


کیسا زمانہ کیسی فضا تھی ان کا کرم تھا ان کی عطا تھی

شام سویرے ، سبز سنہرے دید کی جام تھے پیتے ، بہت دن بیتے


یاد ہے اب تک سارا منظر ، شام و سَحر یا رات میں اکثر

بیٹھ گئے تھے بابِ کرم پر ، چاک گریباں سیتے ، بہت دن بیتے


وحی ثناء بن بن کے اُترتی دل کے حِرا میں نعت محمد

صحن مسجد نبوی میں ہم روز یہ جام تھے پیتے ، بہت دن بیتے


آس بندھی ہے پاس بلالو، ڈوب نہ جاؤں مجھ کو بچا لو

آس بندھے اور بندھ کر ٹوٹے ، ایسے حال میں جیتے ، بہت دن بیتے


ہار گیا تُو عشق کی بازی ، کیسے ادیبؔ وہ ہوں گے راضی

اب و ہ بلالیں تو ہم سمجھیں ، ہار کے بازی جیتے ، بہت دن بیتے