یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نِگاہوں کا

یہ فیض دیکھا ہے سرکار کی نِگاہوں کا

سکوں میں ڈھل گیا سیلاب غم کی آہوں کا


مَہک اٹھی ہیں وہ گلیاں جہاں سے وہ گزرے

چمک اٹھا ہے ستارا اندھیری راہوں کا


ہم آپ کے ہیں سرِ حشر لاج رکھ لینا

اِسی پہ ناز ہے سرکار رو سیا ہوں کا


نقاب اٹھاؤ کہ دیکھیں خدا نما صورت

قرار آپ ہیں حسرت بھری نگاہوں کا


ہے ایک ذرّہ نا چیز وسعتِ کونین

بہت وسیع ہے حلقہ نبیؐ کی باہوں کا


زہےِ نصیب کہ اس کی گلی کا منگتا ہوں

گزارا جس کی عطا پر ہے کج کْلا ہوں کا


گناہ گار ہوں لیکن یہ ناز ہے خالِد ؔ

کہ رحمتوں سے ہے رِشتہ مِرے گناہوں کا